19 May 2024
۱۳۹۸/۰۶/۲۸- ۰۸:۱۳ - مشاهده: ۸۴۹
تعداد بازدید:849 28 شهریور 1398 - 08:13
سیاسیات

علاقائی تعاون حقیقی امن کے قیام کا حل ہے: ایران

پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر نے کہا ہے کہ علاقائی ممالک کو خطے کے ممالک کو بہت سے نشیب و فراز، جنگوں اور کشیدگیوں کے بعد اب تو اس مشترکہ ادراک پر پہنچ جانا چاہئیے کہ خطے میں حقیقی امن اور خوشحالی کا حصول علاقائی تعاون ہی کے ذریعہ ممکن ہے.

پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر نے کہا ہے کہ علاقائی ممالک کو خطے کے ممالک کو بہت سے نشیب و فراز، جنگوں اور کشیدگیوں کے بعد اب تو اس مشترکہ ادراک پر پہنچ جانا چاہئیے کہ خطے میں حقیقی امن اور خوشحالی کا حصول علاقائی تعاون ہی کے ذریعہ ممکن ہے.

یہ بات "مہدی ہنردوست" نے بدھ کے روز پاکستانی صباح نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی.

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تمام اسٹیک ہولڈرز ایک تعمیری سوچ، اجتماعی کوشش اور تمام ہمسایہ ممالک کے تعاون سے مفید اور عملی اقدامات اٹھائیں تو افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کےلئے خطہ کے باہر کی طاقتوں کی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی.

ہنردوست نے کہا کہ خطے میں حقیقی امن اور خوشحالی کا حصول علاقائی تعاون ہی کے ذریعہ ممکن ہے، دھمکی، دباو سابقہ معاہدوں کی خلاف ورزی اور اعتماد کے فقدان کی موجودگی میں امریکہ سے مزاکرات نہیں ہوسکتے.

انہوں نے مزید کہا کہ عالم اسلام کے بہت سے ممالک کی مزاحمت کے بجائے ہاں میں ہاں ملانے اور کمپرومائز کی پالیسیوں کے نتیجے میں اسلام دشمنوں نے اپنی جارحیت اور ڈو مور کے رویہ کو جاری رکھا ہوا ہے، عالم اسلام کی قیادت کو اپنی سابقہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اسلامی جمہوریہ ایران دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے منصفانہ حقوق کی حمایت کو جاری ر کھے گا،

افغانستان کے بارے میں سوال کے جواب میں ایرانی سفیر نے کہا کہ افغانستان سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے سب سے اہم اور ترجیحات میں سب سے اوپر اور کسی بھی موضوع سے زیادہ اہم جو بات ہے وہ ہے وہاں پر پایدار امن کا قیام، جس میں زیادہ سے زیادہ تمام گروہوں اور طبقات کی شمولیت سے کابل میں مرکزی حکومت کے ذریعے تمام داخلی پارٹیوں میں ایک تعمیری بات چیت یقینی بنائی جائے.

انہوں نے کہا کہ اس بارے قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے نزدیک تمام اسٹیک ہولڈرز کو قیام امن کے لئے صاف نیتی کے ساتھ چالیس سالہ تباہی اور عزیز افغانی عوام کے د کھوں اور مصیبت کے خاتمہ کا مقصد لے کر ایک تعمیری سوچ، اجتماعی کوشش اور تمام ہمسایہ ممالک کے تعاون سے کام کا آغاز کریں اور مفید اور عملی اقدامات اٹھائیں.

انہوں نے ہمسایہ ممالک کے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے مزیدکہا کہ اگر یہ تعاون تمام اسٹیک ہولڈرز کی صاف نیتی سے عمل میں آئے تو پورا یقین ہے کہ خطے کے باہر کی طاقتوں کی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں اور انشا اللہ افغانستان کے محنتی عوام کی ہمت، سیاسی اور دینی قیادت کے ساتھ دینے سے، اس غمزدہ عوام اور محرومی‌کے شکار ملک کا جنگ و آشوب سے پاک مستقبل دیکھاجا سکے گا.

علاقائی تعاون کے بارے میں ایرانی سفیر نے کہا کہ مقابلے اور کشیدگی کی پوٹینشل مغربی ایشیا میں زیادہ ہے. مشترکات اور تعاون کا پوٹینشل بہی بہت زیادہ پایا جاتا ہے او مشترکہ مفادات جو کہ تعاون کی شکل میں خطے کے تمام ممالک کو نصیب ہو سکتا ہے اور اسی طرح ان ممالک کا سلامتی کے مشترکہ ماحول کے پیش نظر یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علاقائی تعاون کی عملی اجتماعی پالیسی، ان ممالک کے فیصلہ سازوں کا سب سے اہم آپشن ہو سکتا ہے.

ہنردوست نے کہا کہ البتہ علاقا ئی تعاون کے حصول کیلئے قدم بقدم حالات کو سازگار بنانا ضروری ہے . اور جاری کشیدگیوں کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلا قدم یہ ہو گا کہ تمام ممالک فوجی جھگڑوں اور تنازعوں میں نہ پڑنے کی ضمانت دیں. اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف کی یہ تجویز بھی پہلا اور پور اعتماد ساز قدم ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے عدم جارحیت کا مشترکہ معاہدہ دستخط کرنے کا مشورہ دیا ہے.

انہوں نے کہا کہ اس میں دوسرا قدم خطہ کے ممالک کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ اور اعتماد کی تقویت کا ہو گا. تیسرے عملی اقدام کے طور پر اقتصادی، ثقافتی تعاون اور مشترکہ مفادات کے فروغ کے ذریعہ ان ممالک کو آپس میں زیادہ سے زیادہ جوڑا جا سکتا ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ چوتھا اور فائنل قدم یہ ہو سکتا ہے کہ ایک سیاسی اور سلامتی کے فریم ورک کو مضبوط بنایا جائے جس کا مقصد استحکام، پایدار امن اور علاقہ سے باہر کے عوامل کے بغیر ترقی کو یقینی بنایا جائے. خطے کے ممالک کو بہت سے نشیب و فراز، جنگوں اور کشیدگیوں کے بعد اب تو اس مشترکہ ادراک پر پہنچ جانا چاہئے. جب کہ خطہ میں حقیقی امن اور خوشحالی کا حصول علاقائی تعاون ہی کے ذریعہ ممکن ہے.

ایرانی سفیر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ حساس تاریخی دور میں خارجہ پالیسی سب سے پہلے ہمسائے، کے اصول پر بنائی گئی ہے. جیسے ہمیشہ سے زور دیا ہے ، وسیع تاریخی، ثقافتی، قومی، دینی، سیاسی اور سلامتی کے مشترکات پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات کے کافی دلائل فراہم کرتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ اسی طرح خطے کے حادثات بھی ایسا رخ اختیار کر رہے ہیں جس سے علاقائی اسلامی ممالک جیسے ایران، پاکستان، ترکی اور افغانستان کے درمیان تعاون اور مشترکہ مساعی کی ضرورت، چین اور روس جیسی دوسری طاقتوں کے ساتھ علاقائی استحکام اور سلامتی کی حفاظت اور تقویت اور اقتصادی تعاون کے فروغ کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پورے خطے بشمول مغربی ایشیا، مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں استکباری اور علاقے سے باہر کی طاقتوں کی سیاسی اور فوجی موجودگی کی مخالفت کی ایک ٹھوس دلیل یہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں کے تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطے کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی غیر ملکی مداخلت اور موجودگی کا نتیجہ لاقانونیت کے فروغ، قتل عام، خونریزی، دہشتگرد تنظیموں کے پھیلاو، حالات کی خرابی اور فطرتی طور پر اس کے باعث علاقائی عوام پر زیادہ دباو کے علاوہ کچھ نہ تھا. لہذا اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر، ہم نے بار بار خطے کے ممالک کو مشترکہ حکم عملی، زیادہ سے زیادہ تعامل اور درپیش مسایل کے حل کیلئے تعاون کی نصیحت اور پیشکش کی ہے.

 تہران اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات کے انعقاد کے امکان بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایرانی سفیر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک طاقتور، ذمہ دار اور پوری قوم کی بھرپور حمایت کا مظہر ہے.

انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کی کوئی سازش اس حکومت کو کمزور نہیں کر سکتی. غیر ملکی حکومتوں کے سامنے سرنڈر کرنے کا خیال ایرانی قوم کے افکار میں کسی طرح آ نہیں سکتا. کسی قسم کا کمپرومائز، سرنڈر اور غیر ملکیوں کا سہارا لینا ایرانی قوم کے لئے قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اس قوم اور ملک کی عزت نفس، اقتدار، تاریخ، ثقافت اور پوزیشن کے خلاف اور متضاد ہے. اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے صرف اور صرف احترام کی زبان اور اپنی قوم کے مسلمہ حقوق کی پاسداری ہی قابل قبول عمل ہے.

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتی مشینری حکومتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ اور پایدار امن و استحکام کے مقصد کے ساتھ، ہمہ نوع تعمیری تعامل اور فقط علاقائی مکالمے کیلئے تیار ہے، تہران واشنگٹن کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے یہ واضح کرتا چلوں کہ جب تک دشمنوں کی طرف سے طاقت اور پابندیوں کی زبان کا استعمال جاری ہے جو کہ واضح طور پر حکومتی دہشتگردی اور اقتصادی جنگ ہی ہے، اور جب تک ایران کی سرحدوں کے آس پاس فوجی اڈوں اور فوجی بیڑے کو بڑھانے کا عمل جاری ہے ، اور مذاکرات کی پیشکش دھمکی اور دباو کے ساتھ دی جاتی ہے.

ہنردوست نے مزید کہا کہ جبکہ انہوں نے سابقہ معاہدوں کو توڑا ہے اور اعتماد کا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا، اس وقت تک تہران اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات اور کشیدگی کم کرنے کی باتوں کا کوئی وجود نہیں ہے.

انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر امریکی حکومت ایٹمی معاہدے کی پابند اور ذمہ دار ہے اور اس معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اور پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کو ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے.

ایرانی سفیر نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے ضمن میں ایران کی طرف سے رضاکارانہ ذمہ داریوں میں کمی وہ واحد ضمانت ہے جو دوسرے فریقوں کی طرف معاہدے کی خلاف ورزی پر ایران کو حاصل ہے. جب تک امریکہ اور اس کے کئی فریقی معاہدے میں شامل دوسرے ممالک مکمل طور پر اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کرتے اسلامی جمہوریہ ایران اس معاہدے پر یکطرفہ طور پر اور ان ذمہ داریوں کے بدلے میں کسی قسم کے حقوق کے بغیر پابند نہیں رہ سکتا اور حتی دوسر ے فریقوں کی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کی بھاری قیمت ادا نہیں کر سکتا.

انہوں نے بتایا کہ امریکہ کی جارحیت اور غلبہ پانے کی سوچ کے متعلق یہی بات کہہ سکتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بدقسمتی سے دوسری حکومتوں کی کمزوریوں اور اسی طرح بعض ممالک کی سادگی کی وجہ سے ریاست ہا ئے متحدہ امریکہ نے اس جنگ میں اپنے ہونے والے اخراجات سے کہیں بڑھ کر اختیارات حاصل کر لئے۔ روایتی اور غیر روایتی اسلحہ بنایا اور ذخیرہ کرنے کا انحصاری حق اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق نے بدقسمتی سے حالات کا رخ اس حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال، غیر ذمہ دار رویہ اور بڑھتی ہوئی انحصار طلبی کی طرف موڑ دیا.

انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ مذکورہ ملک نے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں بڑی آسانی سے دخل اندازی کا رویہ اپنا لیا اور دنیا کے جس خطے میں چاہا اپنی فوجیں اتار دیں اور اپنے ان اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے اقوام متحدہ کے ذریعہ اپنی دخل اندازیوں اور جارحیت کیلئے قانونی جواز تراشنے اور بین الاقوامی حقوق اور قوانین کو اپنی مرضی کے مطابق تفسیر کرنے کی روش اپنا چکا ہے.

ہنردوست نے کہا کہ اس وقت ایٹمی معاہدہ اور امریکہ کی طرف سے یکطرفہ علیحدگی کا انجام امریکہ کے اس رول ماڈل رویے کی بہترین مثال ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی‌برادری کے دوسرے ارکان سے اس طرح مختلف ہے کہ خاموشی، حمایت یا اس امریکی برتری پسندی اور طاقت کی زبان کو قبول کرنے کی بجائے، مزاحمت کے راستہ کا انتخاب کیا ہے. دنیا کو امریکی برتری پسند رویہ اور استکباری سوچ سے تب ہی نجات مل سکتی ہے جب مزاحمت اور طاقت ور کی عدم پیروی ہر ایک کیلئے عملی نمونہ اور رول ماڈل میں تبدیل ہو جائے۔

جان بولٹن کوعہدہ سے ہٹانے کے بارے میں سوال کے جواب میں ایرانی سفیر نے کہا کہ جان بولٹن جنگ پسند شخصیت کے طور پر مشہور تھا البتہ وہ اکیلا نہ تھا اور لوگ بھی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے غلط مشوروں کے ذریعہ ایٹمی معاہدہ کے فریم ورک میں تعمیری تعامل کا راستہ بند کر دیا.

انہوں نے کہا کہ جان بولٹن کا اخراج اس بات کی دلیل ہے کہ بی ٹیم کی وہ پالیسیاں غلط ثابت ہوئیں جن کے ذریعہ ٹرامپ حکومت نے معاہدے اور ذمہ داریوں سے علیحدگی اختیار کی، طاقت، دھمکی اور پابندیوں کی زبان استعمال کی، مکالمہ کو بند گلی میں د ھکیلا ہے اور اسے یہ احساس ہوا ہے کہ انکا تجویز کردہ رویہ قطعی طور پر غلط تھا،ایران پر پابندیوں کے بارے میں انہوں نے کہاکہ پابندیوں کے بارے میں دو باتوں کو ضرور مدنظر ر کھناچاہئے.

انہوں نے مزید کہا کہ پہلی یہ کہ اب امریکہ سپر طاقت اور اقتصادی غلبہ والی طاقت باقی نہیں رہا کہ کسی بھی ملک کی معاشی سانسیں روک سکے. دوسری بات یہ ہے کہ ایسی دنیا میں جو معاشی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہے جو بھی ملک اپنے آپ کو اس عالمی معاشی نیٹ ورک سے الگ کریگا فورا دوسرا ملک اس کی جگہ لے لیگا.

انہوں نے بتایا کہ ایران کے خلاف پابندیوں بارے میں بھی یہ اصول لاگو ہوتا ہے. امریکہ کے پاس تمام دنیا کو ایران سے معاشی رابطہ ختم کرنے پر مجبور کرنے کی استطاعت نہیں ہے اور ایران کے خلاف معاشی گھیرا تنگ کرنے کے تناسب سے درحقیقت اتنا ہی اپنے آپ کو فوائد سے محروم کر رہا ہے اور اپنے ان رقیبوں کیلئے راستے کھول رہا ہے جن کا ایران کے ساتھ رابطہ برقرار ہے. اسی طرح جو بھی ملک امریکہ کی یکطرفہ، غیر قانونی اور غیر منطقی پابندیوں پر عمل کریگا درحقیقت وہ ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات سے حاصلہ فوائد سے اپنے آپ کو محروم کرے گا.

عالم اسلام کی پالیسیوں کے بار ے میں ایک اور سوال کے جواب میں ایرانی سفیر نے کہاکہ بدقسمتی سے آج کے دور میں عالم اسلام کے بہت سے ممالک نے مزاحمت کے بجائے ہاں میں ہاں ملانے اور کمپرومائز کی پالیسیوں کو ترجیح دے ر کھی ہے اس طرح کی پالیسیوں کے نتیجے میں اسلام دشمنوں نے بڑھتی ہوئی جرات اور جسارت کے ساتھ اپنی جارحیت اور ڈو مور کے رویے کو جاری ر کھا ہوا ہے. صیہونی ریاست کے دارالخلافہ کی تبدیلی، گولان کی پہاڑیوں کوضم کرنا، صدی کی ڈیل جیسے منصوبے وغیرہ سب اسی کمپرومائز پالیسیوں کے نتایج ہیں. اس ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ بہی بالکل واضح ہے.

ہنردوست نے کہا کہ عالم اسلام میں ہمارے بھائیوں نے دشمن پہچاننے میں غلطی کی ہے. درحقیقت دشمن کی تعریف ان کے لئے دوسری طرح کی گئی ہے . عالم اسلام کی قیادت کو اپنی سابقہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے . اسلامی جمہوریہ ایران کی حد تک، ہم دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے منصفانہ حقوق کی حمایت کو جاری ر کھیں گے. اگر عالم اسلام میں ہر جگہ اور ایک ہی وقت میں اس طرح کی پالیسیوں کو نافذ کیا جائے گا تو دوسرے بھی آج سے زیادہ اپنے ڈو مور اقدامات کے نتایج کی توقع اور فکر کریں گے اور جتنی پریشانی آج ان کو ہے اس سے کہیں زیادہ اپنے ڈو مور رویہ کے نتایج اور آثار کیلئے پریشان نظر آئیں گے.

متن دیدگاه
نظرات کاربران
تاکنون نظری ثبت نشده است

امتیاز شما