6 February 2025
۱۳۹۹/۱۰/۲۳- ۰۸:۲۶ - مشاهده: ۵۹۲
تعداد بازدید:592 23 دی 1399 - 08:26
ایرانی سفیر کےشہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر مضمون

ہیرو کبهی مرتے نہیں، شہید قاسم سلیمانی کی یاد ہمیشہ تازه ہے

پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر نے کہا ہے کہ ایک سال پہلے انہی ایام میں ایران کو ایک ایسے شخص کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا جو کہ خطے اور یورپی دنیا کے آزادی پسند لوگوں کی نظر میں دہشتگردی کے خلاف مقدس جنگ کے ہیرو اور علامت کی طور پر جانے جاتے تھے۔

ایک سال پہلے انہی ایام میں ایران کو ایک ایسے شخص کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا جو کہ خطہ اور یورپی دنیا کے آزادی پسند لوگوں کی نظر میں دہشتگردی کے خلاف مقدس جنگ کے ہیرو اور علامت کی طور پر جانے جاتے تهے۔  قاسم سلیمانی جیسے بہادر جرنیل کی شہادت کی برسی قریب آرہی ہے، جسے  امریکی حکومت کے ایک بزدلانہ، دہشتگردانہ حملہ میں شہید کر دیا گیا. ہمارے خطےکے لوگ اس وقت کو کبهی بهلا نہی سکتے جب آئے روز کسی نہ کسی ملک کے دارالحکومت میں داعش کے ہوتے اور سیاه پرچم لہرائے جاتے اور داعش کے تخریبی حملے ایک ملک  سے دوسرے ملک تک لوگوں کے دلوں پر لرزه طاری کر رہے تهے. شہید قاسم سلیمانی نے داعش اور جبہ النصره جیسے دہشتگردی کی علامت سمجهے جانے والے اور دوسرے جرائم پیشہ گروہوں کی سرکوبی میں سب سے بڑھ کر اور موثر ترین کردار ادا کیا اور نہ صرف خطے بلکہ خطے سے باہر یورپ تک میں بسنے والی قوموں کی سلامتی اور امن و امان کو یقینی بنایا، وه جرنیل ایک بزدلانہ اور مجرمانہ کاروائی میں امریکی صدر کے بلا واسطہ حکم پر شہید کر دئے گۓ. البتہ مکتب اسلام میں خدا کی راه میں شہادت ایک ایسی خواہش و حسرت تهی جو ہمیشہ شہید قاسم سلیمانی کے دل میں موجزن رہی. خطے کے آزادی پسند اور امن پسند عوام کی نظر میں، علاقے کے لوگوں کو دہشتگردی مخالف پرعزم طاقت سے محروم کر دینے کا امریکی جرم قابل مذمت ہے. اس طرح کی کاروائی عام لوگوں کی امن کی تلاش اور دہشتگردی کے خلاف رزم کے عزم اور خواہش  کا قتل ہے. خطے کے عوام کی مرضی اور کاز کے ساتھ کهلم کهلا امریکی دشمنی جو کہ شہید قاسم سلیمانی کے قتل کی صورت میں سامنے آئی، قانونی اور بین الاقوامی سطح پر بهی قابل مذمت ہے. قارئین کی توجہ کچھ پہلوؤں پر مبذول کرانا مطلوب ہے.

 

سب سے پہلے یہ اشارہ کرتے چلیں کہ شہید قاسم سلیمانی کو جسمانی طور پر ختم کرنیکا غیر انسانی امریکی اقدام قانون کے کسی بهی اصول سے مطابقت نہیں رکهتا اور بین الاقوامی قوانین اور مسلمہ اصولوں کی صریح طور پر خلاف ورزی شمار کی جاتی ہے. اقوام متحده کے منشور کی شق نمبر دو نہ صرف کسی بهی ملک کے طاقت کے استعمال بلکہ طاقت کے استعمال کی دہمکی دینے کی ممانعت کرتی ہے. یہ دہشتگردانہ کاروائی اقوام متحده کے منشور کی واضح پایمالی کے علاوه، قاسم سلیمانی جیسے جرنیل کو شہید کرنا انسانی حقوق کی اقدار اور بین الاقوامی ضابطوں کی بهی نفی ہے. زنده رہنے کے حق کی پایمالی عالمی انسانی منشور کی شق نمبر تین اور شہری اور سیاسی حقوق کے منشور کی شق نمبر 6 کی رو سے بهی سخت ممانعت ہے. اس بنیاد پر اس کاروائی میں شامل اور حکم دینے والے اور اس حق کو تلف کرنے والے سب ہی افراد سزا اور تنبیہ کے حقدار ہیں. یہ امریکی دہشتگرد کاروائی سفارتی اور قونصلی قوانین کی بهی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے. شہید سلیمانی ایران کی اعلی فوجی شخصیت تهی، جو جمہوریہ عراق کے اعلی حکام کے لئے سیاسی سطح پر ایک اہم پیغام لے جاتے ہوئے شہید کر دۓ گئے. اس لحاظ سے بین الاقوامی حمایت کے حامل افراد کے خلاف جرایم اور سزاؤں کی روک تهام کے متعلق ویانا اور 1973 کے کنونشنز کے تحت، ایسے افراد کو ہر قسم کے حملوں کے خلاف استثنا حاصل ہے. لہذا شہادت کی باعث کاروائی میں شامل تمام افراد کے خلاف قانونی کاروائی لازمی امر ہے.

دوسری اہم بات جس کا ذکر ضروری ہے وه دنیا اور خطے کے ہر ایک ملک کی وه ذمہ داری ہے جو کہ داعش کے خلاف مقابلے کے لۓ بهر پور کردار ادا کرنے سے متعلق ہے. دہشتگردی کے مسئلہ پر لاپرواہی یا حتی کچھ ممالک کی طرف سے حمایت جس کا واضح مصداق خود داعش ہے اس سے دوسروں کی ذمہ داری ساکت نہیں ہوتی بلکہ یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے.

اور دہشتگردی کے خلاف مقابلہ کی ذمہ داری کو تمام ممالک اور خصوصی طور پر فرنٹ لائن پر موجود ممالک کے کندہوں پر ذمہ داری کے بوجھ کو مزید بهاری بنا دیتی ہے.

شہید قاسم سلیمانی جس طرح کے حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبها رہے تهےاس اصول کا اطلاق ان پر بهی ہوتا ہے. خطے میں داعش کے سامنے آنے کے بعد اس کے ہاتهوں بدامنی، عدم استحکام، تخریبی سرگرمیوں، دہشتگردی اور شرمناک جرایم کی زوردار لہر نے مغربی ایشیا اور خصوصا عراق اور شام کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تها. چنانچہ خطے اور خطے سے باہر کی رائے عامہ اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تنظیموں اور فورمز اپنے اپنے بیانات اور قراردادوں کے ذریعہ سب ممالک کو اس دہشتگرد گروه کے خلاف کاروائی کے لۓ سنجیده، ٹهوس اور مشترکہ جدوجہد اور باہمی طور پر مشترکہ ذمہ داری اٹهانے پر زور دیتے رہے ہیں. شہید قاسم سلیمانی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نمایندہ کے طور اور پیش آنے والے سنگین حالات کو محسوس کرتے ہوئے ابتدا ہی سے، ذہانت کے ساتھ منصوبہ بندی کرتے ہوئے داعش اور جبہ النصره جیسے جرایم پیشہ گروه کی سرکوبی اور ان گروہوں کا نشانہ بننے والے ممالک کی سلامتی اور امن و امان برقرار رکهنے کی وسیع کوششوں کا آغاز کیا. انہوں نے دہشتگردی کے مقابلہ پر اجماع حاصل کرنے پر بهی بهرپور توجہ دی اور نہایت  قلیل مدت میں نہ صرف ایران بلکہ ہمسایہ ممالک اور اسی طرح خطے اور خطے سے باہر کے ممالک میں بهی داعش کے مقابلہ کے لۓ بے بدل سپہ سالار کے طور پر پہچانے جانے لگے. یہ بات داعش کے بنانے، پرورش دینے اور حمایت  کرنے میں شامل امریکا کو ہضم نہ ہو سکی اور داعش کی سرکوبی کرنے اور اس کے عزائم کو ناکام بنانے اور اس کے خطے اور خطے سے باہر حتی یورپ تک کے ممالک کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اور میدان میں ثابت قدم رہنے والے اس با ہمت کمانڈر کو جسمانی طور پر ختم کرنے کیلۓ  بے تابی کے ساتھ  بزدلانہ اور بہیمانہ کاروائی کر کے اسے شہید کر دیا.

تیسری اور بہت اہم بات یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی تمام سرگرمیاں اور اقدامات خطے کے میزبان ممالک کے ساتھ طے پانے والے فریم ورک اور اتفاق کے عین مطابق انجام دی جا رہی تهیں۔

سیاسی اور فوجی نوعیت کی سرگرمیوں کی بنیاد اور موقف دہشتگردی کا مشترکہ مقابلہ کرنا تها. اسلام کے اس عالیقدر شہید کا قتل ایسے وقت میں پیش آیا جب شہید قاسم سلیمانی عراقی حکومت کی باقاعده دعوت پر وہاں گئے اور رسمی طور پر عراقی حکومت کے مہمان تهے.

امریکی صدر دونالڈ ٹرامپ نے اس برملا جرم کے فورا بعد مختلف بیانات میں اس قتل کی ذمہ داری قبول کی اور ریاکاری کے بغیر دہشتگردی کی حمایت پر مبنی اپنی پالیسیون کا چہره بے نقاب کر دیا. بنیادی سوال یہ ہے کہ جبکہ امریکی صدر مسٹر ٹرمپ نی کهلم کهلا اس دہشتگردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تو بین الاقوامی قوانین کا کونسا ایسا ضابطہ ہے جو انہیں قانونی کاروائی اور سزا سے بچاتا ہے؟ ایسی دہشتگردانہ کاروائی جس کے ذمہ داران کو سخت سزا نہ دینے سے امن و امان اور سلامتی کے حوالے سے پورے خطے اور دنیا بهر کو خطرے سے دوچار کرتی  ہے اور دہشتگردوں کی آسودگی خاطر کا باعث بنتی ہے. در حقیقت  امریکا ہر اس طاقت یا حرکت کو ڈرانے کی در پے ہے جو کہ آینده چل کر داعش کے خلاف اٹھ کهڑی ہو یا دہشتگردی کے خلاف خطے میں اجماع حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہو. ایک اہم اور آخری بات دوسری حکومتوں اور متعلقہ تنظیموں کی طرف سے اس طرح کی دہشتگردانہ افعال کے خلاف بروقت اور مناسب رد عمل کے لۓ انکی ذمہ داریوں اور فرایض سے متعلق ہے. حکومتوں کی بے پروائی اور موثر رد عمل کا فقدان حملہ آور دہشتگردوں کی گستاخیوں کو بڑہاوا دینے کا باعث اور اس کے تکرار کی صورت میں رویے میں تبدیلی ہونے کا موجب بنتا ہے.

ایسا رویہ جو کہ اقوام متحده کے منشور کو زیاده کمزور اور غیر موثر بنانے کے علاوه بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی امن و سلامتی کے کردار کو پہلے سے کہیں زیاده مضحکہ خیز اور ایک ٹهوس خطرے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ مختلف اقوام، ممالک اور تنظیموں کی ایک اور اہم ذمہ داری جس کا تصور کیا جاتا ہے وه امریکا کی طرف سے انسانی حقوق کی حمایت میں پیش کۓ جانے والے ریاکارانہ نعروں اور دعوں کی حقیقت برملا کرنا ہے۔ آج کے دور میں ایک ایسی حکومت انسانی حقوق کی فرنٹ لاین مورچوں کے محافظ ہونے کا پرچار کرتی ہے اور دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق بیانات جاری کرتی ہے اور موقف اپناتی ہے اور اس کے لۓ دوسرے ممالک اور حکومتوں کی تحقیر بهی کرتی ہے جو کہ خود کهلم کهلا اور بغیر کسی خوف کے حکومتی سطح پر دہشتگردی کراتی ہے اور فاحش طریقے سے ایسے افراد کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا قدم اٹهاتے ہیں جو اپنی قوم، خطے کی اقوام میں آزادیخواہی اور دہشتگردی جیسے ناپاک فنامنا کے خلاف رزم کے نشان اور سلامتی و استحکام کے موجد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کیا ایسی شرمناک اور غیر انسانی کاروائی جس کے باعث دہشتگردی کے خلاف بر سر پیکار پورے عالم کے محبوب ترین کمانڈر قتل کر دیۓ جائیں، امریکا کی غیر اخلاقی اور شرارت آمیز ماہیت کو آشکار کرنے کے لۓ حکومتوں، اقوام عالم، انسانی حقوق اور دوسری بین الاقوامی تنظیموں کی  ذمہ داریوں کو کئی گنا بڑہا نہیں دیتی ہے؟

آخر میں یہ کہ، ہماری رائے سے اس جرم کے ارتکاب میں شامل افراد اور اس کا حکم دینے والے اور اسی کے ساتھ پشت پناہی کرنے والے عوامل اور اسکی حامی حکومت یا حکومتیں سب ہی، بین الاقوامی انسانی حقوق، طاقت کے استعمال کی ممانعت اور ایک ملک کی خودمختاری کو پایمال کرنے کے ذمہ دار ہیں. بلکہ اس سے بڑھ کر وہ انسانی عوامل جو اس جرم میں شامل ہیں، سزا کے مستحق ہیں. بدیہی طور پر، دہشتگردی ایسے افراد کا شیوہ ہے کہ جن کے پاس اپنے اعمال کے لئے مدلل جواب نہیں ہے.

 اور طاقت کی زبان سے  اپنے خود پسندانہ ایجنڈے کو نافذ کرنا چاہتے ہیں. سردار قاسم سلیمانی کا مشن اور ان کی یاد ہمیشہ ہمارے ذہنوں اور دلوں میں قایم و دائم رہے گی اور یقینی طور پر آئندہ نسلیں ان سے بهی زیادہ طاقت کے ساتھ، حق کی حفاظت اور باطل کے مقابلے کے لۓ آگے بڑہیں گی.  کسی کو جسمانی طور پر ہٹانے سے لڑائی ختم نہیں ہوتی ہے اور سلیمانی کے پیروکار اس کے نقش قدم پر چلیں گے۔

سید محمد علی حسینی-پاکستان میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر

متن دیدگاه
نظرات کاربران
تاکنون نظری ثبت نشده است

امتیاز شما